Saturday 15 September 2012

Article by Abida Rahmani

جان دیدی ہوئی اسی کی تھی --حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا !
عابدہ رحمانی

آج میں نے بالآخر محکمہ صحت اونٹاریو   کینیڈا کی طرف سے مرنے کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنے کا فارم بھر کر سپرد ڈاک کیا- یہ فارم مجھے اس سے پہلے بھی ملتے رہے ہیں لیکن نہ جانے کیوں مٰیں نے انکو قابل توجہ نہ سمجھا - اب جب اسپر  غور کیا تو سوچامیں اللہ کی رضا کیلئے یہ عمل کر رہی ہوں، اللہ اسی کے عوض میری مغفرت فرمادےاور اس عمل کو میرے لئے صدقہ جاریہ بنا دے- اگر میرے یہ اعضا ء کسی کی جان بچا سکتے ہیں تو سب کچھ حاضر ہے - میں نے دل ۔ جگر، گردے،پھیپھڑے ،لبلبہ، آنکھیں ، ہڈیاں سبکو ٹک مارک کیا --
 جان دیدی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کی حق ادا نہ ہوا
 - تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ ----

 میں نے اپنے اہل خانہ کو بتایا تو ہر ایک کا مختلف رد عمل تھا - میری بھاوج کہنے لگی " باجی وہ آپکا سارا جسم خراب کر دینگے اور ان اعضاء سے جو برا کام ہوگا تو آپکو گناہ ہوگا -سارا چیر پھاڑ کے رکھ دینگے"- "حشرات الارض کے لئے پھر بھی کافی کچھ بچ جائے گااور میرا فعل تو ختم ہو چکا ہوگا ہاں ثواب کی توقع ضرور ہے کہ اتنی جانوں کو بچا لیا جاۓگا-اب دیکھو نا کسی میں میرا دل دھڑک رہاہے ، کسی میں کلیجہ اور کوئی پھیپھڑے اور گردے لگائے بیٹھا ہے" میں نے ماحول کو پر مزاح اور ہلکا پھلکا بنانے کی کوشش کی --حالانکہ خود مجھے عالم تصور میں قربانی کا بکرا یاد آرہا تھا کہ ادھر تو ملک الموت روح نکالنے کے لئے تیار ہیں اور ڈاکٹر سرجن چاقو، چھریاں،کھینچیاں تیز تیار کر کے بیٹھے ہیں کہ گرم گرم کلیجی ، دل اور گردے نکال کر باہر کرو یا ڈونر بنک میں جمع کرادو-یہاں کی طبی اصطلاح میں اسکو harvesting کہا جاتا ہے--

کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس-- دو نیناں مت کھائیو  جن میںپیا ملن کی آس ------ 
یہ غزل جب ہم سنتے تھے تو کیا سر دھنتے تھے وقت وقت کی بات ہے واہ واہ کیا کلام ہے سبحان اللہ!اور کیا تان باندھی گئی ہے اب تو مجھے یہ بھی صحیح سے یاد نہیں کہ گانے والے غلام علی تھے یا امانت علی خان۔۔۔۔۔ عجیب و غریب فلسفہ ہے-انہی دو نینوں کو عطیہ کرنے کی ریت سب سے پہلےجنرل محمد ضیاءالحق نے ڈالی اور سب سے پہلے اپنی آنکھیں عطیہ کیں- انکے چہرے میں سب سے پر کشش انکی آنکھیں تھیں- عقابی آنکھیں اور عقابی نظریں - لیکن جب قضاء آئی تو ایسے آئی کہ چند مصنوعی دانتوں کی پہچان سے انکے اجزائے ترکیبی اکٹھے کئے گئے- بھوجا ائر کے طیارے کے حادثے  میں ایک جاننے والی کو انکے بچے کچے چہرے سے پہچانا گیا--اور حالیہ کراچی اور لاہور کی آتش زدگیوں میں مرنے والوں کی ہڈیاں تو سرمہ بن گیئں- موت جو ایک اٹل حقیقت ہے اور جسے آنا ہی آنا ہے- لیکن آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں--
 موت انسان کو کہاں آتی ہے اور کسطرح آتی ہے یہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہی جانتی ہے- قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے- اللہ ہی جانتا ہے تمھارے مستقر(ٹھکانے) اور تمھارے سونپے جانے کی جگہ کو--(ھود آیئت 6)
 کل عافیہ ملی کافی پریشان تھیں کہنے لگیں"   فاطمہ  کی طبیعت کافی خراب ہے ڈونر لسٹ پر نام اوپر آگیاہے - دعا کریں جلدی سے اسے جگر مل جائے"فاطمہ پچھلے دو سال سے بے چینی سے  جگر کے انتظار میں ہے-اسکا آدھا وقت ہسپتالوں میں گزرتا ہے-  ایک جان جائیگی تو ایک جان بچے گی- نو سال کی تھی جب اسکے جگر نے کام کرنا چھوڑ دیا ، عافیہ پاکستان سے خود ڈاکٹر ہے ماں بیٹی دونوں سات آٹھ مہینے یہاں کے سک کڈز ہسپتال میں رہیں  اسکو عافیہ نے اپنے جگر کا کچھ حصہ دیا دونوں ماں بیٹی ٹھیک ہوکر گھر واپس آئیں لیکن چند سال گزرنے کے بعد اس جگر نے کام چھوڑ دیا ہے-سننے میں اتنا عجیب لگتا ہے " دعا کیجئے کہ جلد جگر کا بندوبست ہو جائے"
 سٹیؤ جابس Steve Jobs نے بھی نیا جگر لگوایا تھا اور اسکے سہارے دو چار سال نکال لئے تھے-اب تو جگر کی پیوند کاری پاکستان میں بھی ہورہی ہے اور گردہ بیچنا تو بر صغیر بلکہ پوری دنیا میں ایک کاروبار ہے- امریکہ کے ڈک چینی نے حال ہی میں نیا دل لگوا لیا اور کافی سارے دلوں ، جگر اور گردے کے منتظر بیٹھے ہیں-  پاکستان میں کافی عرصہ پہلے آغا حسن عابدی کے دل کی پیوند کاری کے متعلق مشہور تھا--گردے کی پیوند کاری تو اب کافی کامیاب ہے-
 اس جان کو ہم کتنا سینت سینت کر رکھتے ہیں اسکی کیا کیا  خدمت اور رکھوالی ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو جان ہے تو جہاں ہے اور پھر یہ جسم و جان ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے- لیکن جان جو ایک سانس کے ساتھ نتھی ہے جب ایک لمحے میں چلی جاتی ہےتو خوبصورت سے خوبصورت جسم بھی ایک بیکار گوشت  کا ڈھیر بن جاتا ہے جسکو جلد از جلد ٹھکانے لگانے کی فکر کی جاتی ہے-
موت سے میرا تعلق اتنا گہرا ہے کہ موت کو میں زندگی کا تسلسل اور زندگی کی ایک اور صورت سمجھتی ہوں - قرآن اور احادیث نے اس سلسلے میں بیحد رہنمائی فرمائی ہے بقول احمد ندیم قاسمی،
کون کھتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤنگا --میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا

No comments:

Post a Comment