Thursday 28 June 2012

Maulvi Abdus Salam Niazi by Shahid Ahmad Dehlavi

مولوی عبدالسلام نیازی از شاہد احمد دہلوی
راشد اشرف
کچھ عرصہ قبل شاہد احمد دہلوی کے دلی کی نابغہ روزگار شخصیٰت مولانا عبدالسلام نیازی پر لکھے خاکے کی طلب ہوئی، اور اتفاق دیکھیے کہ شاہد دہلوی کی کتاب اجڑا دیار ایک ایسے کتب فروش کے پاس کتابوں کے ڈھیر میں پڑی ملی جہاں "ہر مال بیس روپیہ" کی آوازیں لگائی جارہی تھیں۔مولانا عبدالسلام نیازی کا خاکہ کتاب مذکورہ میں موجود ہے، مولانا کی ایک نادر تصویر بھی کتاب میں شامل ہے، اس سے قبل ہمیں مولانا کی کوئی تصویر دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ روڑہ دلی کا ہو اور مولانا کے تذکرے کے بغیر آگے بڑھ جائے ، یہ ناممکن ہے۔ شاہد دہلوی کے علاوہ اخلاق احمد دہلوی نے بھی اپنی خودنوشت ’یادوں کا سفر‘میں مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر کیا ہے۔نوعمری کا زمانہ تھا، اخلاق احمد دہلوی اپنے والد کے ہمراہ مولانا کے پاس پڑھنے کی غرض سے تھر تھر کانپتے ہوئے پہنچے۔لطف کی بات یہ تھی کہ ان کے والد بھی خوف سے کانپ رہے تھے۔ بقول اخلاق دہلوی یہ وہ بزرگ تھے جن کے سامنے مفتی اعظم ہند مولوی کفایت اللہ کا پتہ بھی پانی ہوتا تھا ۔

سراکبر حیدری نظام حیدرآباد کا کوئی پیغام لے کر مولانا سے ملاقات کی خاطر ان کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ مولانا کی پاٹ دار آواز آئی
کون ہے ؟
اکبر حیدری نے اپنا نام اور مقام بتایا۔
مولانا نے جواب دیا: بس، آپ کی خدمت میں مولوی عبدالسلام کے کوٹھے کی یہ تین سیڑھیاں ہی لکھی تھیں۔ چوتھی سیڑھی پر قدم نہ رکھنا اور اپنے رئیس سے کہنا کہ اگر اس کی ساری دولت ایک پلڑے میں ترازو کے رکھ دی جائے اور دوسرے حصے میں ہمارے جسم کا کوئی رواں ، تو ترازو کا یہ پلڑا زمین پر لٹکا رہے گا اور پہلا پلڑا معلق رہے گا۔ خدا خوش رکھے۔۔خدا خوش رکھے۔
 سر اکبر حیدری مایوس واپس لوٹ گئے!
 
 ----------------- 
حیدرآباد دکن سے ایک نواب صاحب دلی آئے اور مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
مولانا نے پوچھا"کیسے آنا ہوا" ?
نواب صاحب نے فرمایا "سرکار (نظام حیدرآباد) نے آپ کو یاد کیا ہے۔"
مولانا کو جلال آگیا۔ فرمایا کیوں بلایا ہے اس نے ہمیں۔ اگر وہ اپنے علم سے ہمیں مرعوب کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کے رعب میں آنے والے نہیں ۔ اور اگر وہ ہمیں اپنی دولت دینا چاہتا ہے تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ ارے عثمان! دیکھو وہ سامنے مچان پر جو بوری رکھی ہے، اٹھا لاؤ۔
عثمان جا کر بوری اٹھا لایا۔ مولانا نے فرمایا " اس میں جو کچھ ہے، باہر نکال۔"
عثمان نے بوری میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو نوٹوں کی گڈی نکلی۔ عثمان نے وہ گڈی فرش پر رکھ دی۔ مولانا نے ڈپٹ کر کہا " اور نکال۔"
عثمان نے پھر ہاتھ ڈالا اور ایک گڈی نکال کر رکھ دی۔ غرض یونہی سو سو اور ہزار ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں نکالتا رہا اور گڈیوں کا ڈھیر لگ گیا۔
مولانا نے نواب صاحب سے کہا: " اور دیکھیے گا "
نواب صاحب تھرا گئے۔ ہکلا کر بولے " حضور کے پاس کیا کمی ہے۔"
مولانا نے فرمایا " جا اپنے نظام سے کہہ دے، ہم کسی کے پاس نہیں جایا کرتے۔"
نواب صاحب ہاتھ جوڑتے اور سلام جھکاتے وہاں سے رخصت ہوئے۔

مولانا نے عثمان سے کہا " انہیں بوری میں بھر کے وہیں رکھ آ"
عثمان نے نوٹوں کی گڈیاں سمیٹیں اور بوری مچان پر رکھ دی۔
رمضان کے دل میں بدی آئی۔ عثمان سے کہا " ابے دو ایک گڈیاں تو پار کردے۔ "
عثمان نے ہنس کر کہا " بوری میں کیا رکھا ہے، بوری تو خالی ہے۔ "
استاد رمضاں خاں زندہ سلامت ہیں اور کراچی میں موجود ہیں۔ انہوں نے قسمیں کھا کھا کر اپنا یہ چشم دید واقعہ سنایا تھا۔ 
مولوی عبدالسلام نیازی از شاہد احمد دہلوی 
                               -----------------                      
 
مولانا بڑے خوش مزاج اور فقرے باز تھے۔ ایک دفعہ ایک عرس میں بہت سارے مشائخ اور صوفی جمع تھے کہ ایک حسین طوائف اپنا گانا سنانے آ بیٹھی۔ ایک صوفی صاحب نے اسے دیکھ کر " جل جلالہ" کا نعرہ لگایا۔ اتنے ہی میں اس کی نائکہ بھی آ دھمکی۔ مولانا نے صوفی صاحب کی طرف دیکھ کر فرمایا " لیجیے! عما نوالہ بھی تشریف لے آئی ہیں۔"
ایک قہقہہ پڑا اور موصوف پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
مولوی عبدالسلام نیازی از شاہد احمد دہلوی 
                              ------------------ 

No comments:

Post a Comment